دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اُس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بیتاب سے بھی
اے سمندر کی ہوا تیر اکرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حُسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی