Ahmed_Jan Admin
Posts : 276 Reputation : 0 Join date : 2011-10-23 Age : 29 Location : Pakistan
| Subject: Qabil Ajmeri 19/11/2011, 07:31 | |
| اشعار جو انکی تصنیف " عشق انسان کی ضرورت ہے " سے لیے گئےہیں:
راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سلامت ہے
آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہل دل اندیشہء سود و زیاں تک آگئے
بصد رشک قابل کی آوارگی کو
غزالانِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
قابل دلِ صد چاک ہے سوغات جنوں کی
جی بھر کے اُسے پیار کرو موسمِ گُل ہے
قابل فراقِ دوست میں دل بجھ کےرہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کرسکے
کتنی شمعیں بجھا کے اے قابل
دل میں اک روشنی اُتاری ہے
زمانہ دیکھ لے گا اور تھوڑی دیر باقی ہے
ہمیں نیند آگئی قابل کہ طوفانوں کو نیند آئی
مرے خلوص کا عالم نہ پوچھیے قابل
شکستِ جام سے آوازِ زندگی آئی
قابل انکی بے نیازی کا کرشمہ دیکھیے
اپنی جانب ہوگیا ہے سارے افسانوں کا رُخ
کوئی احسان کرکے قابل پر
دوستی کی سزا نہ دے جانا
کس توقع پہ اہلِ دل قابل
زندگی سے نباہ کربیٹھے
اضطراب ِ دل سے قابل وہ نگاہِ بے نیاز
بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں
قابل کشا کشِ سحرو شام کی قسم
مرنے میں ہے نجات مگر جی رہےہیں ہم
ہم محبت میں مِٹ گئے قابل
اب کوئی غمگسار سا کیوں ہے
صاحبِ درد ہوکے ہم قابل
کوچہء چارہ گر میں رہتے ہیں
یہ طرز فکر یہ رنگِ سخن کہاںقابل
ترے کلام سے پہلےترے کلام کےبعد
قابلِ درد آشنا کے لیے
اک مسیحا رہی ہے تیری یاد
اُس کے طرزِ کلام سے قابل
کتنے وحشی ادیب ہوتے ہیں
وہ اپنی جفا پر پشیماں ہے قابل
محبت کو اب آسرا کون دےگا
پھول تو پھول ہیںاس دور ہوس میں قابل
لوگ کانٹوںکو بھی چُن لیتے ہیں ویرانے سے
قابل مری نگاہ کے چرچےہیں دور دور
آتا ہے بت کدے میںمسلماں کبھی کبھی
روش روش پر میں زخم ِ دل کا لہو چھڑکنا بھی جانتا ہوں
مرے چمن کا فروغ قابل بہار پر منحصر نہیں ہے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابل سے جارہےہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کروگے
ہوس کےدور میں قابل سے عظمتِ فن ہے
غزل سرا بھی رہا ذکرِ یار بھی نہ کیا
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہوجائے
فراقِ دوست سلامت کہ اہل دل قابل
نفس نفس کو زمانہ بنائے پھرتے ہیں
خوشبوئے انتظار سے مہکی ہوئی رات
قابل نہ جانے کس کو بُلاتی ہےچاندنی
ہمیں پر منحصر ہے رونقِ بزم جہاں قابل
کوئی نغمہ ہو اپنا ہی رہینِ ساز ہوتا ہے
منزل سب میں رختِ سفر ہے قابل
درد کی خیر مناتا ہوں سحر ہونے تک
کون ہوتا ہے جفاوں پہ پشیماں قابل
کوئی بیداد بعنوانِ وفا باقی ہے
خنداں نہیں ، مہک نہیں ، رعنائیاں نہیں
قابل یہ پھول ہیں کہ جنازے بہار کے
قابل وہ میرے ساتھ رہے ہیں تمام عمر
مجھ کو مری نگاہ سےپنہاں کیے ہوئے
ہم سفر مل جائینگے درد آشنا مل جائینگے
قابل اپنی داستانِ غم بیا ں کرتے چلو
کچھ نئی بات تو نہیں قابل
ہجرمیں بے کلی ہی رہتی ہے
یہ اور بات کہ تقدیر سوگئی قابل
وگرنہ دیدہ ء بیدار ہم بھی رکھتےہیں
رضائے دوست قابل میرا معیارِ محبت ہے
انہیں بھی بھول سکتا تھا اگر اُن کی خوشی ہوتی
اک جھومتے بادل نے چپکےسے کہا قابل
ہنگام گل آیا ہے ساقی نےبلا یا ہے
رُخصتِ دوست پہ قابل دلِ مایوس کو دیکھ
اک سفینہ ہے کہ ساحل سے جدا ہوتا ہے
گذاری نزع کے عالم میں تونے عمر اے قابل
ترے شعروں میں لیکن زندگانی رقص کرتی ہے
دل میں مچل رہی ہے مسیحا کی آرزو
قابل نشاطِ درد نہیں معتبر ابھی
تجھے کیوں ہو غمِ انجام قابل
خرابِ عشرتِ آغاز ہوں میں
.... فقط: جان خروٹی
| |
|