جب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیں
جب دل کا جوالا سرد پڑا
جب شام و سحر کے صحرا میں
خوابوں کے ستارے ریت ہُوئے
جب عمُر رواں کے مَیداں میں
سب زندہ جذبے کھیت ہوئے
اس وقت مجھے محسوس ہوا
”جس عشق میں ساری عمُر کٹی شاید وہ نظر کا دھوکہ تھا
کرنوں سے کسی کے لہجے میں تنویر تھی میری اپنی ہی
شب تاب بدن کے جادو میں خود میرے لہو کا نشّہ تھا“
کل رات مگر جب کھڑکی پر
مہتاب نے آکر دستک دی
خوشبو کی طرح لہرانے لگی
ہر سمت کوئی سرگوشی سی
”جب آنکھیں بجھنے لگتی ہوں‘ جب دل کا جوالا سرد پڑے
اُس وقت کسی کو کیا معلوم‘ کون اپنا کون پرایا تھا!
لہجے میں نشہ تھا کس کے سبب اور کس نے کسے مہکایا تھا