قابل اجمیری کی عظمت کو سلام :
قابل اجمیری مرحوم کی شخصیت اور اسکی شاعری کی جن خصوصیات نے مجھے بے حد متاثر کیا ان میں سب سےاہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے اپنی زندگی نزع کے عالم میں بسر کرنے کے باوجود اپنی شاعری میں زندگانی کو رقص کرتا ہوا پیش کیا:
اسی کا یہ شعر ہے کہ :
گذاری نزع کے عالم میں تو نے عمر اے قابل
ترے شعروں میں لیکن زندگانی رقص کرتی ہے
میرے پاس قابل اجمیری کی کوئی کتا ب نہیں مگر اسکے ان اشعار کا مجموعہ جسے قابل اجمیری کے فرزند ظفر قابل صاحب نے اپنے فیس بک میں شایع کیا ، اس مجموعہ میں میں نے ایک بھی شعر ایسا نہیں پایا جس میں قابل اجمیری نے قسمت کا رونا رویا ہو اور اپنی بدنصیبی اور اپنی مہلک اور جان لیوا بیماری (دق ) کو اللہ کی دی ہوئی بے جا سزا کے طور پر پیش کیا . اس کی شاعری میں قنوطیت اور مایوسیت کا کوئی رنگ نظر نہیں آتا .
قابل کہتا ہے کہ :
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
اور یہ بھی کہ :
قابل کشاکشِ سحرو شام کی قسم
مرنے میں ہے نجات مگر جی رہے ہیں ہم
اور یہ بھی کہ :
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیںکہ مری موت زندگی ہو جائے
قابل نے ایک شعر میں یہ بھی کہا ہے کہ :
تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشتِ غربت میں
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھاےپھرتےہیں
قابل نے اپنی زندگی کی آخری غزل میں یہ بھی کہا کہ :
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتےہیں
زندگی آج ترا قرض چکا دیتےہیں
قابل کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ :
چراغِ بزم ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سےپہلے بجھے ہیں شام کے بعد
قابل اجمیری کا مقام میری نظر میں اردو شاعری میںبہت ہی بلند ہے. وہ فانی بدایونی کی طرح قنوطیت اور مایوسیت کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ اپنے اشعار میںرجائیت کا پہلو اجا گر کرتا ہے ؛ فانی بدایونی کے پاس سب کچھ تھا مگر اس کے تقریباً تمام اشعار میں تقدیر کا شکوہ اور اپنی بد قسمتی کی شکایت موجود ہے مگر قابل اجمیری کے پاس کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی اس کی شاعری میں رجائیت کی عکاسی موجود ہے . اس کی اور اسکی شاعری کی اس اہم خصوصیت کےباعث میں قابل کو ایک عظیم شاعر سمجھتا ہوں .
...........................
قابل اجمیری کی ایک اور خصوصیت مجھے بے حد پسند ہے کہ اس نے اپنےہم عصر شعرا کی رقابت کو اپنی شاعری میں کوئی جگہ نہیں دی اور عم عصرانہ چشمکوں اور سازشوں سے بے نیاز ہوکر اپنے شعر کہے اور اپنے اشعار میں کسی ہم عصر کی تخریبی تنقید کا جواب نہیں دیا حالانکہ غالب اور ذوق اور آتش و ناسخ بھی اپنے ہم عصر شعرا کی رقابت کا جواب اپنے اشعار میں دیتےرہے مگر قابل اجمیری ان سب باتوںسے بے نیاز ہوکر اپنے اشعار کہتا گیا اس کا کہنا تھا کہ :
ابھی تو تنقید ہورہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کروگے
اس نے یہ بھی کہا کہ :
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاو مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانےوالو میںلڑکھڑایا تو کیا کروگے
قابل اجمیری کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ :
یہ طرز فکر ،یہ رنگ. سخن کہاں قابل
ترے کلام سے پہلے ترے کلام کےبعد
اس کو یہ شکایت ضرور تھی کہ :
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے میرے سلام کے بعد
قابل اجمیری کی شان اسکے اس شعر میںدیکھیے کہ :
ہوس کےدور میں قابل سے عظمتِ فن ہے
غزل سرا بھی رہا ذکر یار بھی نہ کیا
اور یہ بھی کہ :
ہمیں پر منحصر ہے رونقِ بزمِ جہاں قابل
کوئی نغمہ ہو اپنا ہی رہینِ ساز ہوتا ہے
قابل اجمیری نے کنایتہً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ :
قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے
تجھی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں
اس نے یہ ضرور کہا کہ :
احباب کے فریبِ مسلسل کے باوجود
کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی
اور یہ بھی کہ:
آپ کا سنگِ ر نہیں چمکا
ہم جبینیں سیاہ کر بیٹھے
قابل اجمیری خاک بسر ضرور تھا مگر اس نے اپنے شعر میں کہا ہے کہ :
ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جھکا دیتے ہیں
.....
قابل اجمیری کا رتبہ اردو شاعری میں بے حد بلند ہے اور جب تک اردو زبان زندہ ہے قابل اجمیری اور اسکی شاعری بھی زندہ رہےگی .
....
قابل اجمیری کی عظمتوں کو سلام
.......فقط :
جان خروٹی