جب کبھی آنکھ ملاتے ہیں وہ دیوانے سے
روئے تاباں پہ ابھر آتے ہیں ویرانے سے
لذت گردش ایام وہی جانتے ہیں
جو کسی بات پہ اٹھ آئے ہیں میخانے سے
تم بھی ایسے میں الٹ دو رخ تاباں سے نقاب
زندگی جھانک رہی ہے مرے پیمانے سے
لوگ لے آتے ہیں کعبہ سے ہزاروں تحفے
ہم سے اک بت بھی نہ لایا گیا بت خانے سے
سوچتا ہوں تو وہ جاں سے بھی زیادہ ہیں عزیز
دیکھتا ہوں تو نظر آتے ہیں بیگانے سے
ظلمت دیر و حرم سے کوئی مایوس نہ ہو
اک نئی صبح ابھرنے کو ہے میخانے سے
تیری ایک سادہ نظر کا ہے کرشمہ ساقی
ان گنت رنگ جھلکنے لگے پیمانے سے
پھول تو پھول ہیں اس دور ہوس میں قابل
لوگ کانٹوں کو بھی چن لیتے ہیں ویرانے سے