تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہٴ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازہٴ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنہٴ محشر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی ُتنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری تھی اسد داغِ جگر سے مری تحصیل
آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا
* * * * *